یک
دفعہ بابا جی فریدؒ اپنے سیلانی دور میں ایک بستی سے گزرے۔ دیکھا کہ ایک
خوبصورت عورت ایک غریب عورت کو مار رہی ہے ۔ بابا جی نے وجہ دریافت فرمائی
۔۔ اطلاع ملی کہ یہ امیر عورت ایک عشرت گاہ کی مالکہ ہے اور غریب اس کی
ملازمہ ۔ بلکہ مشاطہ ۔ اس دن نوکرانی نے مالکن کو کاجل ڈالا اور اس کے
ساتھ کوئی ریت کا ذرّہ بھی تھا جو اس کی خوبصورت آنکھوں میں بڑا تکلیف دہ
لگا ۔ اس لیے اس نے خادمہ کو مارا ۔
بابا جی اپنے سفر پر گامزن ہو گئے
۔ ایک مدت کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا اور اسی بستی کے قبرستان میں قیام
کے دوران بابا جی نے ایک عجیب منظر دیکھا ۔ ایک چڑیا نے ایک انسانی کھوپڑی
میں اپنے بچے دیے ہوئے تھے ۔ وہ چڑیا آتی اور چونچ میں خوراک لا کر بچوں
کو کھلاتی، لیکن ۔
بچے کھوپڑی کی آنکھوں سے باہر منہ نکالتے اور
خوراک لے کر اندر چلے جاتے ۔ انسانی کھوپڑی کا یہ مصرف بابا جی کو عجیب سا
لگا ۔ انہوں نے یہ دیکھنے کے لئے مراقبہ کیا کہ یہ کھوپڑی کس آدمی کی ہے ۔
انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو اسی
خوبصورت عورت کی ہے جو آنکھ میں ریت کا ذرّہ برداشت نہ کرتی تھی ۔ آج اس
کی آنکھوں میں چڑیا کے بچے بیٹھے ہوئے ہیں ۔
بابا جی نے کہا ؎
جن لوئیں جگ موہیا سو لوئیں میں ڈٹھ
کجرا ریکھ نہ سہندیاں تے پنچھی سوئے بٹھ
یک
دفعہ بابا جی فریدؒ اپنے سیلانی دور میں ایک بستی سے گزرے۔ دیکھا کہ ایک
خوبصورت عورت ایک غریب عورت کو مار رہی ہے ۔ بابا جی نے وجہ دریافت فرمائی
۔۔ اطلاع ملی کہ یہ امیر عورت ایک عشرت گاہ کی مالکہ ہے اور غریب اس کی
ملازمہ ۔ بلکہ مشاطہ ۔ اس دن نوکرانی نے مالکن کو کاجل ڈالا اور اس کے
ساتھ کوئی ریت کا ذرّہ بھی تھا جو اس کی خوبصورت آنکھوں میں بڑا تکلیف دہ
لگا ۔ اس لیے اس نے خادمہ کو مارا ۔
بابا جی اپنے سفر پر گامزن ہو گئے ۔ ایک مدت کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا اور اسی بستی کے قبرستان میں قیام کے دوران بابا جی نے ایک عجیب منظر دیکھا ۔ ایک چڑیا نے ایک انسانی کھوپڑی میں اپنے بچے دیے ہوئے تھے ۔ وہ چڑیا آتی اور چونچ میں خوراک لا کر بچوں کو کھلاتی، لیکن ۔
بچے کھوپڑی کی آنکھوں سے باہر منہ نکالتے اور خوراک لے کر اندر چلے جاتے ۔ انسانی کھوپڑی کا یہ مصرف بابا جی کو عجیب سا لگا ۔ انہوں نے یہ دیکھنے کے لئے مراقبہ کیا کہ یہ کھوپڑی کس آدمی کی ہے ۔
انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو اسی خوبصورت عورت کی ہے جو آنکھ میں ریت کا ذرّہ برداشت نہ کرتی تھی ۔ آج اس کی آنکھوں میں چڑیا کے بچے بیٹھے ہوئے ہیں ۔
بابا جی نے کہا ؎
جن لوئیں جگ موہیا سو لوئیں میں ڈٹھ
کجرا ریکھ نہ سہندیاں تے پنچھی سوئے بٹھ
بابا جی اپنے سفر پر گامزن ہو گئے ۔ ایک مدت کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا اور اسی بستی کے قبرستان میں قیام کے دوران بابا جی نے ایک عجیب منظر دیکھا ۔ ایک چڑیا نے ایک انسانی کھوپڑی میں اپنے بچے دیے ہوئے تھے ۔ وہ چڑیا آتی اور چونچ میں خوراک لا کر بچوں کو کھلاتی، لیکن ۔
بچے کھوپڑی کی آنکھوں سے باہر منہ نکالتے اور خوراک لے کر اندر چلے جاتے ۔ انسانی کھوپڑی کا یہ مصرف بابا جی کو عجیب سا لگا ۔ انہوں نے یہ دیکھنے کے لئے مراقبہ کیا کہ یہ کھوپڑی کس آدمی کی ہے ۔
انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو اسی خوبصورت عورت کی ہے جو آنکھ میں ریت کا ذرّہ برداشت نہ کرتی تھی ۔ آج اس کی آنکھوں میں چڑیا کے بچے بیٹھے ہوئے ہیں ۔
بابا جی نے کہا ؎
جن لوئیں جگ موہیا سو لوئیں میں ڈٹھ
کجرا ریکھ نہ سہندیاں تے پنچھی سوئے بٹھ
No comments:
Post a Comment